شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
ساری اُمیدیں ٹوٹ گئیں، دل بیٹھ گیا، جی چھوٹ گیا
فصلِ گل آئی یا اجل آئی، کیوں در زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
کیجئے کیا دامن کی خبر اور دستِ جنوں کو کیا کہیئے
اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گذری چھوٹ گیا
منزل عشق پہ تنہا پہنچے، کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
No comments:
Post a Comment